سمپوزیم "اخلاق و عرفان علامہ طباطبائی کے افکار میں"، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں منعقد ہؤا؛ عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کے سیکریٹری جنرل کا خطاب۔
کی رپورٹ کے مطابق سمپوزیم "اخلاق و عرفان علامہ طباطبائی کے افکار میں"، ہندوستان کے دارالحکومت نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں منعقد ہؤا۔
یہ بین الاقوامی سمپوزیم "نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز" کے زیر اہتمام اور "نئی دہلی کے ہیومینٹیز ریسرچ انسٹی ٹیوٹ" کی شراکت سے منعقدہ ہؤا اور دہلی کے نامی گرامی دانشور، اور فلسفہ اور کلام کے سینئر اساتذہ نے اس سمپوزیم میں شرکت کی۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اساتذہ اور طالبعلموں نے اس سمپوزیم کا زبردست خبر مقدم کیا اور بعض ہندوستانی اور ایرانی محققین اور دانشوروں نے مرحوم آیت اللہ علامہ سید محمد حسین طباطبائی کے حالات زندگی اور افکار کو، اس عصر حاضر کے عظیم مفسر قرآن، فلاسفر، عارف اور اسلام شناس کے اخلاق و عرفان کے تناظر میں،
اس سمپوزيم میں - جس کا جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اساتذہ اور طلباء نے زبردست خیر مقدم کیا - ہندوستانی اور ایرانی محققین، علماء اور دانشوروں نے مفسر قرآن، فلسفی، عارف اور عصر حاضر کے عظیم اسلام شناس مرحوم آیت اللہ سید محمد حسین طباطبائی کے طرز زندگی، اخلاقیات و عرفان کے نقطہ نظر سے ان کی زندگی اور افکار پر روشنی ڈالی۔
* علامہ طباطبائی "شریعت"، "طریقت" اور "حقیقت" کی جہتوں کی حامل جامع شخصیت تھے
اس سمپوزیم کے مہمان خصوصی اور مقرر خاص، عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی، آیت اللہ رضا رمضانی تھے جنہوں نے تین اخلاقی مکاتب فکر "مادی مکتب فکر، اخروی مکتب فکر اور توحیدی مکتب فکر" کی خصوصیات، مختلف پہلؤوں اور ان کے اثرات و ثمرات پر روشنی ڈالی۔
انھوں نے ان تین اخلاقی مکاتب فکر کے ثمرات کے بارے میں کہا: مادی اخلاقی مکتب فکر، جو یونانی فلسفیوں کے ہاں زیر بحث رہا ہے، دنیاوی منفعتوں اور مفادات کو مطمع نظر قرار دیتا ہے، اخروی مکتب فکر جنت اور اخروی منفعت کے حصول کے لئے کوشش کرتا ہے۔ لیکن اخلاقیات کا توحیدی مکتب فکر "حق مطلق" اور "انتہائی کمال" کا حصول ہے۔
جناب رمضانی نے مزید کہا: اول الذکر مکتب فکر میں "عقل معاش" کو ترقی دی جاتی ہے، یعنی انسانوں کو خوشحال زندگی فراہم ہوگی؛ دوسرے مکتب فکر میں "عقل معاد" کو ترقی ملتی ہے اور اس عمل میں انبیاء (علیہم السلام) بنیادی کردار ادا کرتے ہیں اور تیسرے مکتب فکر میں محور و مدار عشق اللہ اور حُبُّ الله ہے، جس میں انسان اپنے ہی اختیار سے، اللہ کے سوا کچھ بھی نہیں دیکھتا۔
سیکریٹری جنرل عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی نے کہا: علامہ طباطبائی کی فکر کی بنیاد تیسرا مکتب فکر یعنی "توحیدی اخلاقیات" کا مکتب ہے۔ یہ اصول "علامہ طباطبائی کا علم الوجود (ontology)" ہے جو انھوں نے قرآن کریم سے اخذ کیا ہے۔
انھوں نے کہا: توحیدی اخلاقیات حب اللہ پر استوار ہے۔ اس معرفت میں اللہ سے مدد لینا چاہئے اور ہر چیز میں اللہ کو دیکھنا چاہئے اور ہر چیز کا ارادہ اللہ کے ارادے پر منحصر، سمجھنا چاہئے۔
استاد رمضانی نے علامہ طباطبائی کو ایک جامع شخصیت قرار دیا جو شریعت، طریقت اور حقیقت جیسی جہتوں پر مشتمل ہے۔ انھوں نے کہا: علامہ طباطبائی ایک عظیم انسان تھے صاحب طریقت تھے اور شریعت کے ذریعت مرحلۂ حقیقت تک عروج کر گئے؛ ایک عقل پسند انسان تھے جنہوں نے اپنے نفس کو تربیت دی اور مرحلۂ شہود تک پہنچے۔
عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کے سیکریٹری جنرل نے کہا: علامہ نے اپنی تر کوششوں کو اللہ کی صفات سے متصف ہونے، مقصد خلقت تک پہنچنے یعنی "اشرف مخلوقات" کے رتبے تک پہنچنے، پر مرکوز کیا؛ انھوں نے کہا: انسان توحیدی اخلاقیات کے بدولت، تمام معاملات میں ایک سکون اور ایک گہرا اطمینان حاصل کر لیتا ہے، وہی سکون و اطمینان جو آج کے انسانی معاشروں کی سب سے اہم اور بڑی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا: توحیدی اخلاقیات کا اہم ترین ثمرہ سکون و اطمینان ہے، جبکہ موجودہ زمانہ "دل مُردَگی اور اداسی کا زمانہ" ہے۔ بدقسمتی سے، آج بہت سے لوگوں نے خود سے، دوسروں سے اور خدا سے رشتہ ناطہ توڑ لیا ہے؛ اگر یہ رشتہ جوڑنا مقصود ہے، تو خود سے شروع کرنا پڑے گا اور علامہ طباطبائی "خود اور خدا کے درمیان صلح و آشتی" پر زور دیا کرتے تھے۔
آیت اللہ رمضانی نے کہا: علامہ طباطبائی کا عرفانی مکتب تمام لوگوں کے لئے قابل عمل اور قابل متابعت ہے اور یہ مکتب مادہ پرستی کی دلدل میں پھنسی ہوئی آج کی اس دنیا دنیا میں، خدائے متعال تک پہنچنے کے لئے معنویت کا چراغ بن سکتا ہے۔
انھوں نے علامہ طباطبائی کی سادہ اور چمک دمک سے عاری زندگی کی کچھ مثالیں بیان کرکے ان کی زندگی کو راہ حقیقت کے پیاسوں کے لئے خوبصورت نمونۂ عمل قرار دیا۔
* ہندوستان کے تمام مذاہب میں معنوی، روحانی اور عرفانی رجحان پایا جاتا ہے
ہندوستان میں رہبر معظم امام خامنہ ای (حفظہ اللہ تعالیٰ) کے نمائندے حجت الاسلام و المسلمین مہدی مہدوی پور اس بین الاقوامی سمپوزیم کے مقررین میں سے ایک تھے جنہوں نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ہندوستان میں رائج تمام ادیان و مذاہب معنوی، روحانی اور عرفانی رجحانات کے حامل ہیں؛ ہندوستان اولیاء اللہ کی سرزمین ہے۔ اس سرزمین کے باشندے سب زاہدانہ اور عارفانہ زندگی کے درپے ہیں۔ چنانچہ ضروری ہے کہ علامہ طباطبائی جیسی شخصیت اور ان کی فکر کو اس ملک میں متعارف کرایا جائے۔
ان کا کہنا تھا: ہند ایک "عرفان دوست" ملک ہے جہاں مختلف عرفانی مکاتب رواج پا رہے ہیں۔
جناب مہدی پور نے آیت اللہ طباطبائی کے سیر و سلوک اور عرفانی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا: "علامہ کی جامعیت (Comprehensiveness)" ہندوستان کے مسلمانوں، ہندؤوں اور دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کے لئے اہمیت رکھتی ہے۔
* علامہ طباطبائی کے بارے میں مقالہ خوانی اور کتب کی رونمائی
نئی دہلی کی جامعۂ ملیۂ اسلامیہ کے شعبۂ اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ جناب "اقتدار محمد خان" نے سمپوزیم کے شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے آیت اللہ رمضانی اور جناب مہدوی پور کی آمد کو اپنے اور جامعہ کے لئے باعث فخر و اعزاز قرار دیا۔
نیز کچھ ہندوستانی اساتذہ اور علمی شخصیات نے اس کانفرنس میں اپنے لکھے ہوئے مقالات پڑھ کر سنائے۔
اس یک روزہ سمپوزیم کے آخر میں ان کتابوں کی تقریب رونمائی کی تقریب منعقد کی گئی جو "عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی - ہندوستان" کی مدد سے، علامہ طباطبائی کی شخصیت اور افکار کے بارے میں انگریزی، اردو اور ہندی زبانوں میں شائع کی گئی ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ عالمی اہل بیت(ع) اسمبلی کے سیکریٹری جنرل آیت اللہ رضا رمضانی اور اسمبلی کے بین الاقوامی امور کے معاون ڈاکٹر عبد الرضا راشد" ہندوستان میں شیعہ اداروں اور سرگرمیوں کو قریب سے دیکھنے کے لئے بھارت کے دورے پر ہیں۔
«بنیاد بینالمللی عاشورا» مؤسسهای غیر دولتی و غیر انتفاعی است که به منظور گسترش فرهنگ حیاتبخش و حماسهآفرین عاشورا و ایجاد جریان مستمر و پویا در حوزۀ بسط و گسترش سیرۀ حضرت امام حسین (ع) و زنده نگه داشتن فرهنگ عاشورا از سال ۱۳۹۳ هجری شمسی زیر نظر «مجمع جهانی اهل بیت (علیهمالسلام)» شروع به فعالیت کرده و سعی دارد در این راه با بهرهگیری از ابزارهای نوین علمی، پژوهشی، فرهنگی، هنری، مطبوعاتی، تبلیغاتی و فضای مجازی و با خلق آثار برجسته و نیز گسترش فعالیتها و خدمات علمی و فرهنگی و مشارکت بیش از پیش علما و اندیشمندان جهان اسلام و تشیّع گام بردارد.